الحمداللہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، زندگی کا ایک کثیر وقت پیسے کمانے اور ذمہ داریوں کو نبھانے میں گزر گیا۔ کچھ فرصت ملی اور مسلمان ہونے کا مطلب سمجھا، اپنے ارد گرد دیکھا، موت کے بارے، آخرت کے بارے خیال آیا تو سمجھنا شروع کیا کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، اپنا علم، عمل،زندگی گزارنے کا طرز اور طریقہ دیکھا تو سمجھ آیا قرآن و حدیث سے یکسر مختلف ہے۔ پھر پڑھنا شروع کیا تو بہت کچھ سمجھ آیا اور آج دن تک سمجھنے کی تلاش میں مصروف ہوں۔
ہمارا ایمان وہی ہے جو ہمارے والدین نے بچپن میں ہمارے ذہنوں میں ڈال دیا، بڑے ہوئے اور مختلف عالم دین کو سنا، پڑھا اور پھر ڈیجیٹل دور آ گیا، سکرین پر موجود ہر شخص کی اپنی بات، منطق، علم اور دلیل ہے، زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے سوائے کمانے، ضروریات پوری کرنے کے علاوہ نہ کوئی سوچ ہے، نہ احساس اور شاید نہ ضرورت۔
ایسے میں آخرت کہاں ہے، موت کی تیاری کیا ہے، بچوں کی تربیت، ضروریات زندگی اور ان سب میں توازن کیس طرح ممکن ہے یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ایک سادہ مسلمان کی حیثیت سے ذہن میں رہتی ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہم آخرت کو، سوال جواب کو، جنت جہنم کو نیک اور بد اعمال کو اور حساب کتاب کو ہم قطعی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایسے میں حقیقت تک پہنچنا آسان نہیں، موجودہ دور میں جب گمراہی عروج پر ہے، علم کی حقیقت مشکوک ہو چکی، ہر وقت کی فکر معاش کو اتنا الجھا دیا ہے کہ راہ حق تک پہنچنا اور استقامت کے ساتھ چلتے رہنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔
ایسے میں کہیں سے بھی اگر وہ علم حاصل ہوتا ہے جس پر عقل دلیل کے ساتھ متفق ہو، ذہن قبول کرتا ہو اور موجودہ دور کی زندگی سے ہم آہنگ ہو وہ علم میں اس ویب سائٹ پر ڈال رہا ہو۔ اس سے اختلاف کا حق سب کو حاصل ہے، میں ایک بالکل سادہ، عام سا بے عمل سا، گناہ گار انسان ہو، حق کا طالب ہو اور تلاش حق میں سرگرداں ہو۔ اس سفر میں کوئی ساتھی بننا چاہے تو خوش آمدید اگر کسی کو اختلاف ہو تو پیشگی معذرت۔
والسلام
محمد افضل قریشی
جواب دیں
تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کا لاگ ان ہونا ضروری ہے۔